ٹائمز آف انڈیا نے یہ انکشاف کیا ہے کہ داؤد ابراہیم اور ان کے معتمد چھوٹا شکیل نے 1990 کے عشرے میں خود کو ہندوستانی حکام کے سپرد کرنے کی پیش کش کی تھی لیکن حکومت نے ان کی تجویز مسترد کر دی۔
یہ بات خود چھوٹا شکیل نے اخبار کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہی ہے۔
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اور بی جے پی کے سابق وزیر قانون رام جیٹھملانی نے اس بات کی تصدیق کی ہے، اور شرد پوار نے بھی جو اس وقت مہارشٹر کے وزیر اعلی تھے۔
اگر آپ کو داؤد ابراہیم کے متعلق نہیں پتہ تو یہاں کلک کریں : داؤد ابراہیم کے متعلق چند حقائق
چھوٹا شکیل اور داؤد ابراہیم کی شرط یہ تھی کہ ان پر تشدد نہ کیا جائے (شرد پوار کے مطابق گرفتار بھی نہ کیا جائے) اور جیل کے بجائے انہیں گھر میں قید رہنے دیا جائے۔
رام جیٹھملانی نے یہ تجویز تحریری طور پر مہاراشٹر کی حکومت کو بھیج دی تھی لیکن شرد پوار کی حکومت نے کہا کہ وہ ایسی کوئی ضمانت نہیں دے سکتی، اس لیے بات وہیں ختم ہوگئی!
حکومت کی سچائی اور داؤد ابراہیم کی سادگی پر دانتوں تلے انگلی دبانے کا دل کرتا ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہےکہ حکومتیں کبھی جھوٹ نہیں بولتیں، اپنے وعدے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتیں، جو کہہ دیا بس اس پر قائم رہتی ہیں چاہے وعدہ ایک ایسے شخص سے ہی کیوں نہ کیا گیا ہو جو تقریباً 250 معصوم شہریوں کے قتل کے لیے مطلوب ہو!
اور داؤد ابراہیم کی سادگی کو بھی سلام۔ وہ بھی حکومت پر بہت بھروسہ کرتے ہیں۔
انھوں نے بھی سوچا ہوگا کہ کب تک ادھر ادھر بھٹکتے رہیں گے، چلو واپس ممبئی چلتے ہیں، وہیں سکوں کی زندگی گزاریں گے، تمام یار دوست وہیں ہیں، بھائی لوگ بھی وہیں ہیں، باہر رہ کر کاروبار سنبھالنا بہت مشکل ہو رہا ہے۔
آپ کو شاید لگے کہ یہ رابطہ غیر معمولی تھا، لیکن ہندوستان کی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ اے ایس دولت نے اس ہفتے کچھ ایسے انکشافات کیے ہیں کہ انگلیوں کو دانتوں سے دور ہی رکھنا بہتر ہوگا۔
ان کا کہنا ہے کہ ممنوعہ تنظیم حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین نے کشمیر کے ایک میڈیکل کالج میں اپنے بیٹے کا داخلہ کرانے کے لیے خفیہ انٹیلی جنس ایجنسی آئی بی کی مدد لی تھی۔
حزب المجاہدین نےتو اس دعوے کو مسترد کیا ہے لیکن اے ایس دولت کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے رابطے کوئی غیر معمولی بات نہیں ہیں اور سید صلاح الدین آج بھی ہندوستان لوٹنا چاہتے ہیں بس انھیں واپس لانے کی کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔
ان دعوؤں میں کتنی سچائی ہے کہنا مشکل ہے لیکن اگر یہ واقعی درست ہیں تو داؤد ابراہیم اور سید صلاح الدین جسے لوگوں کی شخصیت کا ایک ان دیکھا پہلو ضرور سامنے آتا ہے، انہیں بھی اپنے وطن سے محبت ہے اور وہ گھر واپسی کے لیے بے قرار ہیں۔
اسکے بعد صاف اندازہ ہوتا ہے کے بھارتی حکومت میں حکمتِ عملی اور مصلحت جیسی کوئی چیز نہیں ۔ اور انکی حکومت چند بے وقوفوں او رسر پھروں پر مشتمل ہے جو جذبات کی رو میں بہہ کر اکثر ایسے فیصلے کر بیٹھتے ہیں جن پر دنیا ہنستی ہے ۔