جی میل نے ’انڈو سینڈ‘ متعارف کرایا ہے جس سے آپ 30 سیکنڈ کے اندر اندر بھیجی جانے والی ای میل کو منسوخ کر سکتے ہیں۔ پیٹر فلیمنگ پوچھتے ہیں کہ کیا یہ فیچر ایسی ای میلز کے بھیجنے کے بعد ہونے والے اس افسوس کو ختم کر دے گا جنھیں آپ واپس لینا چاہتے تھے۔
کچھ سال پہلے ماہرِ فلکیات سٹیفن ہاکنگز نے کہا تھا کہ ان کو ایک ایسی ای میل ملی تھی جس میں لکھا تھا کہ ’چلو اٹھو اور حرکت کرو، میں سارا دن یہاں بیٹھا تمہارا انتظار نہیں کر سکتا ہے، کام شروع کرو۔‘
پتہ چلا کہ بھیجنے والا ایک انجینیئر تھا جو دیر تک آفس میں کام کر رہا تھا اور اپنے ساتھ دفتر میں کام کرنے والے ایک سست ساتھی کو ایک مراسلہ بھیجنا چاہتا تھا۔ بدقسمتی سے وہ اس کے ساتھ ساتھ سٹیفن ہاکنگز سے بھی ان کی کتاب ’اے بریف ہسٹری آف ٹائم‘ کے متعلق بات کر رہا تھا۔ اس نے غلطی سے وہ ای میل سٹیفن ہاکنگز کو بھیج دی۔
انٹرنیٹ پر ’بھیجی گئی ای میل کو کیسے واپس بلایا جائے‘ کی بڑے پیمانے پر تلاش کو دیکھ کر گوگل نے اپنے ای میل یوزرز کے لیے یہ آپشن بنایا ہے۔ پیغام بھیجنے کے بعد پچھتانے کی بجائے ہم سٹینڈرڈ کولنگ آف کو چن سکتے ہیں جن کی مدد سے آپ 10، 20، یا 30 سکینڈ تک اپنے پیغامات بھیجنے میں تاخیر کر سکتے ہیں۔ یہ ہمیں اتنا وقت دے دے گا کہ ہم اس بات کے متعلق از سرِ نو سوچ سکیں کہ کیا باس کے کھانے کی عادات کے متعلق بھیجا گیا پیغام ذرا زیادہ ہی سخت تو نہیں تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ چیز خاص طور پر دفتروں میں کام کرنے والوں کے لیے زیادہ پرکشش ہو گی۔ مارکیٹنگ پروفیشنلز پر کیے گئے ایک سروے سے یہ بھی سامنے آیا ہے کہ 78 فیصد افراد غلطی سے کوئی حساس پیغام کسی دوسرے شخص کو بھیج دیتے ہیں۔
جی میل کے نئے آپشن سے کوئی فرق پڑے گا یا یہ صرف ایک علامتی چیز ہی ہے
ای میل کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ کبھی کبھار آپ بے ساختہ آنے والے خیالات اور احساسات بغیر سوچے سمجھے بھیج دیتے ہیں۔ اس کی رفتار اور دو بہ دو رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں کہ یہ ممکنہ طور پر کیریئر کو نقصان پہنچانے والی چیز بھی ہے۔ اس کی وجہ سے کئی لوگوں کو نوکریوں سے بھی نکالا جا چکا ہے۔
لیکن یہ ’انڈو سینڈ‘ ای میل فیچر اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اب دفتر کا کام گھر کی زندگی کو بھی متاثر کرتا ہے اور بہت سے لوگ اس وقت بھی ایک دوسرے سے رابطہ کر رہے ہوتے ہیں جب وہ تھکے یا پریشان ہوتے ہیں۔
ہم اس دور میں نیٹ میں تحفظ محسوس کرتے ہیں جب معاشی تحفظ دھیرے دھیرے غائب ہوتا جا رہا ہے۔
اور جمعے کی رات کو ڈرنکس کے بعد ای میل چیک کرنے اور پیغامات بھیجنے کی بھی ہماری ایک خطرناک عادت ہے۔ اس کی وجہ سے آفس مینجمنٹ میں بڑی غلطیاں ہوئی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رات کو 11 بجے باس کو بھیجی گئی غصے سے بھری ای میل کے اپنے مسائل ہیں۔ وہ بھی جب آپ نے شراب پی رکھی ہو۔ لیکن صبح کی ٹھنڈی روشنی میں چیزیں بہت مختلف ہو جاتی ہیں۔ بہت سے لوگوں کو یہ بات ایک بھاری قیمت ادا کرنے کے بعد پتہ چلی ای میل اور شراب ایک دوسرے کے ساتھ مل نہیں سکتے۔
ای میل آفس کلچر میں ناراض کارکنوں کا ایک ہتھیار بھی بن جاتی ہے۔ بہت سے مالکان توقع رکھتے ہیں کہ ہم کام کے دوران بہت زیادہ پروفیشنل وضع رکھیں جس کی وجہ سے باہمی تعلقات صاف ستھرے اور سرد ہو گئے ہیں۔ آفس میں تعلقات نہ تو بہت جذباتی ہوتے ہیں اور نہ ہی بہت سرد اور نہ ہی ناقابل پیشن گوئی۔ ای میل ہمیں وہ موقع اور جگہ دیتی ہے جہاں ہم اپنی انسانی عادات کا کھل کر اظہار کر سکتے ہیں جو کہ بظاہر ہم نے دبا کر رکھی ہوتی ہیں، خصوصاً اس وقت جب ہم دفتر سے گھر آتے ہیں اور کام کے مسائل پر بات کرتے ہیں جن کے اکثر بہت برے نتائج سامنے آتے ہیں۔
پرانے دنوں میں ہم اپنے پارٹنرز اور دوستوں سے کام کے مسائل کے متعلق بات کرتے تھے۔ اور بات وہیں ختم ہو جاتی تھی۔ لیکن جب ایم میل درمیان میں آئی تو اس کو بہت دل چاہنے لگا کہ یہ بات سب کو بتائی جائے۔ اور مسئلہ یہی ہے۔ کیونکہ ای میل رابطے کی ایک جہتی شکل ہے اس لیے یہ اس بات کو بہت تھوڑا ہی سامنے لاتی ہے کہ بھیجنا والا کسی مسئلے پر حقیقت میں کیسا محسوس کر رہا ہے۔ اس میں ہماری تشویش کی پیچیدگی اور گہرائی شامل نہیں ہوتی۔
تو کیا ’انڈو سینڈ‘ آپشن اس میں مدد کرے گا؟ اس کو ’سیو‘ فنکنشن کی ایک اور دلفریب شکل بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس طرح کی لیبلنگ سے افسوس اور غم جیسی یوزر کی مخصوص بے چینی کو ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور اس طرح سے یہ ایک علامتی چیز بھی ہے۔
Source: BBC NEWS