انسان تو انسان ۔۔۔پودے بھی قاتل نکلے

اب تک تو یہ سنتے آئے تھے کہ کہ پیڑ اور پودے ہماری غذا ہیں ۔لیکن اس دنیا میں کچھ ایسے بھی پیڑ ہیں جن کی غذا انسان اور جانور ہیں۔ سب سے پہلے ان حیرت انگیز پودوں کا پتہ لگانے والا ایک آسٹریلین سیاح تھا ۔ وہ جنگلی جڑی بوٹیوں کی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک ایسے ہی پیڑ کا شکار ہو گیا ، لیکن دم توڑنے سے پہلے خون سے لت پت جسم سنبھالے بچ نکلنے میں کامیاب ہوا ۔اس نے بتایا کہ جب ایک درخت کی شاخوں نے اسے جکڑ لیا تو محسوس ہوا کہ شیر کے چنگل میں پھنس گیا ہے ۔ اس گوشت خور درخت کی لمبی اور کٹیلی شاخوں نے جگہ جگہ سے اس کے جسم سے گوشت کے ٹکڑے نوچ لیے تھے ۔

ایسے ہی پیڑ تمانیہ کے سمندری کناروں پر بسے جنگلات میں بھی ہیں ۔ اگر کوئی اس درخت کے قریب سے بھی گذر جائے تو وہ اسے دبوچ لیتا ہے ۔ یہ درخت کچھ ہی دیر میں شکار کے جسم سے گوشت نوچ لیتے ہیں ۔  ایک پیڑ ویسٹ انڈیز میں پایا جاتا ہے ۔اسے “موسیقار” کہتے ہیں اس پیڑ کے شکار کرنے کا ڈھنگ انوکھا ہے ۔ دن بھر اس پیڑ سے سریلی جھنکار نکلتی ہے ۔ غروب آفتاب کے  ساتھ ہی یہ جھنکار سسکیوں اور رونے کی آوازوں میں بدل جاتی ہے ۔۔۔پاس سے گذرنے والا مسافر مجبور ہو کر مجبور کی مدد کرنے کے خیال سے اس جھاڑ کے اندر گھس جاتا ہے اور جھنڈ کی شاخیں اسے دبوچ لیتی ہیں ۔ پتیوں کے چاقو کی دھار جیسے تیز کنارے پلک جھپکتے ہی مسافر کے ٹکڑے کر دیتے ہیں اور خون بہہ کر جڑوں میں چلا جاتا ہے ۔ پہلا شکار ختم ہوتے ہی پیڑ دوبارہ رونا شروع کر دیتا ہے ۔

٭ ارجنٹائن کے ریڈ انڈین قبائلی طبقوں نے ایک پیڑ کا پتہ لگایا ہے ۔ انہوں نے اس پیڑ کا نام “موگا” رکھا ہے ۔ اس پودے سے صبح سویرے سرشار کر دینے والی خوشبو نکلتی ہے ، اس کے نیچے سے جو بھی مسافر گزرتا ہے وہ اس خوشبو سے بے ہوش ہو جاتا ہے اور اس بے ہوشی کے عالم میں ہاتھی کے کان جیسی پتیاں شکار کو کھینچ لیتی ہیں ۔

٭ ایک اور خطرناک پیڑ ہے اس کا نام “منچ نیل ” ہے یہ برازیل کے گھنے جنگلات میں پایا جاتا ہے ۔ بہار کے موسم میں اس پر سرخ خوبصورت پھول کھلتے ہیں ۔ ان سرخ پھولوں سے لگاتار زرد رنگ کا برادہ جھڑتا رہتا ہے ۔یہ برادہ اتنا تیز اور زہریلا ہوتا ہے کہ جسم کے کسی حصے پر گرتے ہی وہ حصہ گل کر لعاب بن جاتا ہے ۔ یہ لعاب جڑوں میں جذب ہو کر اسے خوراک پہنچاتا ہے ۔

٭ آسٹریلیا  میں پایا جانے والا ایک خطرناک درخت “جیمپی” بھی کچھ کم نہیں ۔ اس درخت سے ایک زہریلا مادہ خارج ہوتا ہے اس مادے سے پہنچنے والی تکلیف ایسی ہوتی ہے کہ جیسے گرم تیزاب پھینک دیا گیا ہو اور یہ تکلیف اتنی شدید ہوتی ہے کہ انسان خود کشی کرنے پر تیار ہو جاتا ہے ۔

٭ یوپس، ملایا سیلنزر کے سمندری ساحل پر ایک اور قسم کے خطرناک جھاڑ موجود ہیں اس جھاڑ کے سیب نما گول گول پھلوں سے ایک زہریلا رقیق لعاب ٹپکتا رہتا ہے جو چند منٹوں میں جاندار کا کام ختم کر دیتا ہے ۔ جنگلی لوگ اپنے تیروں اور نیزوں کی نوکوں کو تیز کرنے کے لیے اس زہر کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وحشی پیڑ کی جڑ کے پاس سڑے ہوئے انسانی گوشت اور ہڈیوں کا انبار لگا ہوا تھا اور اس کے پاس سمندری کنارے پر مردہ مچھلیوں کے بھی ڈھیر لگے ہوئے تھے ۔کہ کہ پیڑ اور پودے ہماری غذا ہیں ۔لیکن اس دنیا میں کچھ ایسے بھی پیڑ ہیں جن کی غذا انسان اور جانور ہیں۔ سب سے پہلے ان حیرت انگیز پودوں کا پتہ لگانے والا ایک آسٹریلین سیاح تھا ۔ وہ جنگلی جڑی بوٹیوں کی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک ایسے ہی پیڑ کا شکار ہو گیا ، لیکن دم توڑنے سے پہلے خون سے لت پت جسم سنبھالے بچ نکلنے میں کامیاب ہوا ۔اس نے بتایا کہ جب ایک درخت کی شاخوں نے اسے جکڑ لیا تو محسوس ہوا کہ شیر کے چنگل میں پھنس گیا ہے ۔ اس گوشت خور درخت کی لمبی اور کٹیلی شاخوں نے جگہ جگہ سے اس کے جسم سے گوشت کے ٹکڑے نوچ لیے تھے ۔

ایسے ہی پیڑ تمانیہ کے سمندری کناروں پر بسے جنگلات میں بھی ہیں ۔ اگر کوئی اس درخت کے قریب سے بھی گذر جائے تو وہ اسے دبوچ لیتا ہے ۔ یہ درخت کچھ ہی دیر میں شکار کے جسم سے گوشت نوچ لیتے ہیں ۔  ایک پیڑ ویسٹ انڈیز میں پایا جاتا ہے ۔اسے “موسیقار” کہتے ہیں اس پیڑ کے شکار کرنے کا ڈھنگ انوکھا ہے ۔ دن بھر اس پیڑ سے سریلی جھنکار نکلتی ہے ۔ غروب آفتاب کے  ساتھ ہی یہ جھنکار سسکیوں اور رونے کی آوازوں میں بدل جاتی ہے ۔۔۔پاس سے گذرنے والا مسافر مجبور ہو کر مجبور کی مدد کرنے کے خیال سے اس جھاڑ کے اندر گھس جاتا ہے اور جھنڈ کی شاخیں اسے دبوچ لیتی ہیں ۔ پتیوں کے چاقو کی دھار جیسے تیز کنارے پلک جھپکتے ہی مسافر کے ٹکڑے کر دیتے ہیں اور خون بہہ کر جڑوں میں چلا جاتا ہے ۔ پہلا شکار ختم ہوتے ہی پیڑ دوبارہ رونا شروع کر دیتا ہے ۔

٭ ارجنٹائن کے ریڈ انڈین قبائلی طبقوں نے ایک پیڑ کا پتہ لگایا ہے ۔ انہوں نے اس پیڑ کا نام “موگا” رکھا ہے ۔ اس پودے سے صبح سویرے سرشار کر دینے والی خوشبو نکلتی ہے ، اس کے نیچے سے جو بھی مسافر گزرتا ہے وہ اس خوشبو سے بے ہوش ہو جاتا ہے اور اس بے ہوشی کے عالم میں ہاتھی کے کان جیسی پتیاں شکار کو کھینچ لیتی ہیں ۔

٭ ایک اور خطرناک پیڑ ہے اس کا نام “منچ نیل ” ہے یہ برازیل کے گھنے جنگلات میں پایا جاتا ہے ۔ بہار کے موسم میں اس پر سرخ خوبصورت پھول کھلتے ہیں ۔ ان سرخ پھولوں سے لگاتار زرد رنگ کا برادہ جھڑتا رہتا ہے ۔یہ برادہ اتنا تیز اور زہریلا ہوتا ہے کہ جسم کے کسی حصے پر گرتے ہی وہ حصہ گل کر لعاب بن جاتا ہے ۔ یہ لعاب جڑوں میں جذب ہو کر اسے خوراک پہنچاتا ہے ۔

٭ آسٹریلیا  میں پایا جانے والا ایک خطرناک درخت “جیمپی” بھی کچھ کم نہیں ۔ اس درخت سے ایک زہریلا مادہ خارج ہوتا ہے اس مادے سے پہنچنے والی تکلیف ایسی ہوتی ہے کہ جیسے گرم تیزاب پھینک دیا گیا ہو اور یہ تکلیف اتنی شدید ہوتی ہے کہ انسان خود کشی کرنے پر تیار ہو جاتا ہے ۔

٭ یوپس، ملایا سیلنزر کے سمندری ساحل پر ایک اور قسم کے خطرناک جھاڑ موجود ہیں اس جھاڑ کے سیب نما گول گول پھلوں سے ایک زہریلا رقیق لعاب ٹپکتا رہتا ہے جو چند منٹوں میں جاندار کا کام ختم کر دیتا ہے ۔ جنگلی لوگ اپنے تیروں اور نیزوں کی نوکوں کو تیز کرنے کے لیے اس زہر کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وحشی پیڑ کی جڑ کے پاس سڑے ہوئے انسانی گوشت اور ہڈیوں کا انبار لگا ہوا تھا اور اس کے پاس سمندری کنارے پر مردہ مچھلیوں کے بھی ڈھیر لگے ہوئے تھے ۔