کلاس روم میں سناٹا طاری تھا ۔ طلبہ کی نظریں کبھی استاد کی طرف اٹھتیں اور کبھی بورڈ کی طرف۔ استاد کے سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا ۔ سوال تھا ہی ایسا ۔ استاد نے کمرے میں داخل ہوتے ہی بغیر ایک لفظ کہے بلیک بورڈ پر ایک لمبی لکیر کھینچ دی ۔پھر اپنا رخ طلبہ کی طرف کرتے ہوئے پوچھا :”تم میں سے کون ہے جو اس لکیر کو چھوئے بغیر چھوٹا کر دے ۔”
“یہ ناممکن ہے ۔” کلاس کے سب سے ذہین طالب علم نے آخر اس خاموشی کو توڑتے ہوئے جواب دیا :”لکیر کو چھوٹا کرنے کے لیے اسے مٹانا پڑے گا اور آپ چھونے سے بھی منع کر رہے ہیں ۔”
استاد نے گہری نظروں سے طلبہ کو دیکھا اور کچھ کہے بغیر بورڈ پرپہلی لکیر کے متوازیمگر اس سے بڑی ایک اور لکیر کھینچ دی ۔ جس کے بعد سب نے دیکھ لیا کہ استاد نے پچھلی لکیر کو چھوئے بغیر اسے چھوٹا کر دیا ۔ طلبہ نے آج اپنی زندگی کا سب سے بڑا سبق سیکھ لیا تھا ۔ دوسروں کو بدنام کئے بغیر انہیں نقصان پہنچائے بغیر ، ان سے حسد کیے بغیر ، ان سے الجھے بغیر ان سے آگے نکلنے کا ہنر چند منٹ میں سیکھ لیا تھا ۔