جہانگیر اور اسکا عالیشان مقبرہ

قیمتی نگینوں سے بنا ہوا جڑاؤ کا کام ایک نہایت خوبصورت ، شاندار  شاہی تاج سبز مخمل پر رکھ ہے ۔ اس مقبرے کی رنگین نقش و نگار والی دیواریں ، دروازے ، فرش اور آراستہ اونچے اونچے مینار دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ مغل بادشاہ جہانگیر کے اپنی زندگی میں کس شان کے ساتھ رہتا ہوگا ۔

چوتھا مغل بادشاہ نور الدین جہانگیر بچپن میں شہزادہ سلیم کہلاتا تھا ، باپ جلال الدین اکبر اسے پیار سے شیخو پکارا کرتا تھا ۔ اسے بھی اپنے پڑدادا اور پہلے مغل بادشاہ ظہرالدین بابر کی طرح کھلی فضا میں باغات کی تعمیر اور خوبصورت وادیوں کی سیر کا  بڑا شوق تھا ۔ ، اس لیے گرمیاں گزارنے کے لیے وہ اکثر کشمیر جایا کرتا تھا ۔ ۔ اسے لاہور شہر بھی بڑا پسند تھا ۔ کیونکہ آگرہ اور دلّی سے چلنے کے بعد یہ ہی ایک خوبصورت شہر راستے میں آتا تھا ۔ دریائے جمنا کے کنارے پر آباد دلّی اور آگرہ کی طرح لاہور شہر کا بھی اپنا ایک تہذیبی رنگ تھا ۔ یہاں بھی مسجدیں آباد تھیں ۔ مندر وغیرہ بھی تھے ۔ اور بزرگوں کے آستانے بھی تھے ۔ جن پر ان کے چاہنے والوں کا رش لگا رہتا تھا ۔

اتفاق کی بات ہے کہ کشمیر کے ایک ایسے ہی سفر میں جہانگیر سخت بیمار ہو گیا تو اس نے وصیت کی کہ اسے لاہور شہر میں دفن کیا جائے ،چنانچہ اس کی لاش یہاں لا کر راوی کے کنارے دل کشا نامی باغ میں دفن کر دی گئی ۔ جہانگیر کی خواہش تھی کہ اس کا مقبرہ کھلا ہوا ہو تاکہ اس پر آسمان سے شبنم اور بارش برستی رہے ۔ جہانگیر کے جان نشینوں نے دس سال میں تقریباً دس لاکھ روپے خرچ کر کے یہ خوب صورت مقبرہ تعمیر کر دیا ۔ یہ مقبرہ دیکھنے کے لیے بے شمار لوگ دور دور سے آتے ہیں ۔ اس کے میناروں پر چڑھتے ہیں اور سبزہ زاروں پر چہل قدمی کر کے خوش ہوتے ہیں ۔