سمندر کاپانی 25 گھنٹوں میں دو دفعہ چڑھتا ہے اور دو دفعہ اترتا ہے یعنی تقریباً چھے گھنٹے ساحل کی طرف بڑھتا ہے اور چھ گھنٹے اترتا ہے ۔ سمندر کے پانی کے اس چڑھاؤ کو عربی میں “مد ” اور اتار کو ” جزر” کہتے ہیں ۔
ہر اتار چڑھاؤ چاند کی کشش کا نتیجہ ہے ۔ چاند سورج سے بہت چھوٹا ہے لیکن زمین سے اس کا فاصلہ سورج کے مقابلے میں بہت کم ہے اس لیے چاند کی کشش سمندر کے پانی پربہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے، سورج چونکہ بہت زیادہ دور ہے اس لیے سمندر کے پانی پر اس اثر بہت کم ہے ۔ سمندر زمین کے گرد غلاف کی طرح چڑھا ہوا ہے ۔
زمین کی محوری گردش کی وجہ سے سمندر کا جو حصہ چاند کے سامنے آتا ہے چاند اس کے پانی کو اپنی طرف کھنچتا ہے اور سمندر کے پانی میں چڑھاؤ شروع ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے ۔ کھلے سمندر میں اس کی لہریں تین سے چار فٹ تک بلند ہوتی رہتی ہیں مگر ساحل کے قریب اس کی سطح زیادہ بلند ہوتی ہے ۔
مدوجزر کو جغرافیائی اصطلاح میں ” جوار بھاٹا” بھی کہتے ہیں ۔ مدوجزر کی وجہ سے دریاؤں کے دہانوں پر جو ریت اور مٹی جمع ہو جاتی ہے وہ سمندر میں چلی جاتی ہے ۔ کم گہرے سمندر میں جہاز ساحل تک نہیں پہنچ سکتے تو چڑھاؤ کے وقت وہاں جہاز بندر گاہ تک پہنچ جاتے ہیں ، کیونکہ چڑھاؤ کی وجہ سے وہاں پر پانی کی گہرائی زیادہ ہو جاتی ہے ۔ مدوجزر کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ سمندر کا پانی آپس میں مل جاتا ہے اور حرکت کرتا رہتا ہے جس کی وجہ سے پانی بدبو دار نہیں ہوتا اور ساحل کے قریب گھونگے، سپیاں ، وغیرہ بھی چھوڑ جاتا ہے ۔اور ساتھ ساتھ ساحل کے قریب آباد شہروں کے بازار بھی صاف کر جاتا ہے ۔ کراچی کے ساحلی علاقے “سی ویو” اور برمی بنگالیوں کے علاقے ” کورنگی سو کواٹر ” سے مدوجزر صاف نظر آتے ہیں جن کو دیکھ کر دل میں عجیب و غریب سرور محسوس ہوتا ہے