اسکول جانے والے والے بہت سے بچےایسی حرکتیں کرتے ہیں جن کا مقصد صرف اتنا ہوتا ہے کہ ان کے والدین کو تعلیمی کارکردگی یا پیپرز کے بارے میں علم نہ ہو ۔اور پھر جب والدین کو کسی طریقے سے علم ہو جاتا ہے تو پھر بچے کی ٹھیک ٹھاک ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی ہے ۔مگر اس کے باوجود یہ جاننے کی کوشش نہیں کی جاتی ۔کہ بچے نے ایسی حرکت کیوں کی ۔۔۔؟؟
والدین اگر سنجیدگی سے اس ” کیوں ” کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں تو کچھ بنیادی وجوہ نظر آئیں گی ۔ پڑھائی میں عدم دلچسپی ایک بچے کا مسئلہ نہیں ، بلکہ اکثر بچوں کا ہے ۔خصوصاً لڑکوں کا دل پڑھنے میں کم ہی لگتا ہے ، اور امتحانات کے دنوں میں تو یہ دباؤ مزید بڑھ جاتا ہے ۔والدین چاہتے ہیں کہ بچے دنیا کو ایک طرف رکھ کر صرف پڑھائی کی طرف توجہ کریں ۔۔۔ صبح شام ،اٹھتے بیٹھتے ، انہیں صرف پڑھنے ہی کا کہہ کہہ کر امتحانات سے نالاں کر دیا جاتا ہے ۔بچے پڑھائی کے علاوہ کسی اور سرگرمی میں مصروف ہوں تو ماؤں کی ڈانٹ ڈپٹ شروع ہو جاتی ہے ۔مثلاً “ٹی وی دیکھتے رہو گے یا پڑھو گے بھی ؟” یا پھر ” امتحان ختم ہونے تک کمپیوٹر کو ہاتھ بھی لگانے کی ضرورت نہیں ۔” اس قدر سختی اور پابندیوں کے بعد بچوں کو امتحانات کسی سزا سے کم نہیں لگتے اور پڑھائی میں ان کی دلچسپی کم سے کم ہوتی چلی جاتی ہے ۔
بچوں کی پڑھائی میں عدم دلچسپی کی ایک اور وجہ ، اسکولز میں آئے دن ٹیچرز کی تبدیلی بھی ہے ۔ خاص طور پر نجی اسکولز میں تو عام طور پر تین چار ماہ بعد ہی کوئی نہ کوئی ٹیچر تبدیل ہو جاتا ہے یہ تبدیلی سب سے زیادہ طلبہ کو متاثر کرتی ہے ۔ بچے ابھی ایک استاد سے مانوس بھی نہیں ہوتے کہ نیا استاد آجاتا ہے ۔ فطری بات ہے کہ ہر استاد کا سمجھانے کا طریقہ دوسرے استاد سے بالکل مختلف ہوتا ہے یوں بچے تعلیمی یک سوئی سے محروم ہو جاتے ہیں ۔
آج کل تمام ہی نجی اسکولز اس کاشش میں مصروف نظر آتے ہیں کہ ان کے اسکول کا شمار شہر کے مستند اور مشہور اسکول میں ہو ۔ اس مقصد کے لیے وہ نامور اسکولز کے نصاب اور طریقے اپنانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جس طرح مور کے پنکھ لگا کر کوّا مور نہیں بن جاتا اسی طرح امتحانات کے لیے طویل سلیبس دے کر معیارِ تعلیم بھی بلند نہیں ہو جاتا ۔ بچوں کو آنے والے کل کے لیے تیار کرنے کی ذمہ داری بھی تعلیمی اداروں ہی کی نہیں بلکہ والدین کا بھی فرض بنتا ہے کہ تعلیمی سال کے آغاز سےہی بچوں کو دو گھنٹے کے لیے ہی سہی مگر خود پڑھائیں ، اور امتحانات کے دنوں میں بچے پر ایک دم پڑھائی کا بوجھ بھی نہ پڑے ۔ یہ مقابلے کا دور ہے اور بچوں کے اس مقابلے میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ان کی ہر ممکن حوصلہ افزائی کی جائے ۔
بہترین رزلٹ لانے پر انہیں چھوٹے موٹے تحائف دئیے جائیں ۔ یوں بچوں میں نہ صرف پڑھنے کی لگن پیدا ہوگی بلکہ وہ تعلیمی میدان میں بھر پور کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ۔