ہم صبح و شام تاشا دیکھتے ہیں کہ زندگی کس قدر ناپائیدار ہے ۔۔۔۔
افسوس ہم پھر بھی اس بے وفا سے پیار کرتے ہیں ۔۔۔ سچا واقعہ پڑھئے ۔۔۔۔۔ شاید دل میں اتر جائے ۔
اندازاً 1940 ء کا ذکر ہے مجھے نوجوانی میں تن سازی کا شوق ہوا کرتا تھا ،کشتی پسندیدہ مشغلہ تھا ۔ میرا گاؤں خوشحال پور صرف 25 گھروں پر مشتمل تھا ، یہ گاؤں ضلع جموں میں سوچیت گڑھ کے قریب تھا ،اسی گاؤں میں ایک نوجوان سردار محمد تھا ،عمر میں وہ مجھ سے بڑا تھا ۔ میرے گھر اور اس کے گھر کی پشت ملی ہوئی تھی ،بیوہ ماں کی اکلوتی اولاد ،خوبصورت گورا چٹا ،شاہ زور مگر شریف نوجوان تھا ۔معمولی زمین داری تھی ۔مگر وہ سستے زمانے تھے ، ماں اور بیوی کے اخراجات آسانی سے پورے ہو جاتے تھے ۔ کبڈی کا ابھرتا ہوا کھلاڑی تھا ۔
اس زمانے میں رمضان شریف موسمِ سرما میں آیا کرتا تھا ۔ بچے بھی شوق سے روزے رکھا کرتے تھے ۔ کیونکہ دن بہت مختصر ہوتے تھے ، ہمارے گھر کے قریب ایک نوجوان ہندو کھتری چونی لال دوکان چلایا کرتا تھا ۔ وہ گونگا اور بہرا تھا ، ایک دن صبح دس بجے کے قریب میں ایک دوکان پر کھڑا تھا ، سردار محمد ، چونی لال دوکان دار سے گری بادم اور شکر لے کر بادام توڑ توڑ کر کھا رہا تھا ، ہمارے گاؤں کے ایک بزرگ بڑے احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے ، لوگ ان کو “لا لا” کہا کرتے تھے، وہ بزرگ مویشیوں کا چارہ اٹھائے ہوئے آئے ، سردار محمد کو انہوں نے بغیر روزے کے دیکھ کر کہا ” اوئے سردار پتر روزہ رکھ لیا کرو ، سردار نے مسکرا کر مگر بڑے ادب سے جواب دیا ،”لالا ! رکھ لیں گے روزے بھی ،ابھی بہت عمر پڑی ہے ۔” لالا جی یہ کہہ کر چلے گئے ” عمر کا کیا اعتبار ہے پتر ” ۔ یہ باتیں میرے سوا کسی نے نہیں سنی تھیں ۔
رمضان ہی میں ہمارے پورے علاقے میں چیچک کی وبا پھیل گئی ،کوئی گھر اس وباء سے خالی نہ رہا ،شرح اموات اتنی بڑھ گئی کہ لوگوں نے مرنے والوں کے لئے رونا چھوڑ دیا ۔ کام کاج بھلا کر سارا دن قبرستان میں بیٹھے رہتے اور قبریں کھودتیں رہتے ، الغرض اتنی دہشت پھیل گئی کہ ” عاشقانِ فراموش کردند عشق ۔”
ایک دن سردار محمد حسبِ معمول قبرستان نہ آیا ،معلوم ہوا کہ اسے بخار ہو گیا ہے ، چیچک کا حملہ سخت بخار کی صورت میں ہوتا ہے۔ ایک ہفتہ میں سردار کو چیچک اتنی گھنی نکلی کہ چہرے سمیت پورے بدن پر تل برابر جگہ خالی نہ رہی ، چند دن بعد دوپہر کے وقت پیغام ملا کہ سردار محمد کے لئے قبر تیار کرو ، بیوہ ماں اور سہاگن بیوی کو بے اولاد چھوڑ کر چلا گیا ۔
میں نے آخری بار سردار محمد کو نہ دیکھا مگر دو بزرگ خواتین کو میں نے باتیں کرتے ہوئے سنا (وہ سردار محمد کو دیکھ کر آرہی تھیں ) وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ توبہ کہتی ہوئی ہوتھ مل رہی تھیں ، ایک کہہ رہی تھی چہرہ بالکل پہچانا نہیں جا رہا تھا ، میں آج بھی سوچتا ہوں کہ ہمارے گاؤں کے ان گنت لوگ مرے تھے ۔ مگر سردار محمد کا خوب صورت گورا چہرہ کیوں ایسے ہو گیا ؟