آج کل لاہور میں جاری مسیحیوں کے پرتشدد احتحاج پر بے اختیار روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا قول یاد آ گیا جس نے کہا تھا، “دہشت گردی کا کوئی مذہب یا قومیت نہیں ہوتی”۔ لاہور میں اقلیتوں کے گرجا گھروں پر حملے نے اس بات کو مزید واضع کر دیا کہ دہشت گرد قوم اور مذہب کی بندش سے آزاد ایسے لوگوں کا ٹولہ ہے جن کا مقصدصرف اور صرف دہشت پھیلانا ہے۔
دہشت گردی کی اصطلاح کی تعریف بارے کوئی درسی یا بین الاقوامی اتفاق رائے موجودنہیں ہے۔ مختلف قانونی نظام اور سرکاری ایجنسیاںدہشت گردی کی مختلف تشریحات کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ حکومتیں بھی کسی ایک متفق اور قانونی تشریح بارے ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دہشت گردی کی اصطلاح سیاسی اور جذباتی طور پر بہت ہیجان انگیز ہے اور ہر حکومت کا دہشت گردی بارے اپنا نقطہ نظر ہے۔ چند لوگوں کے ہیرو، چند دیگر لوگوں کے لیے دہشت گرد ہو سکتے ہیں، اور یہ سلسلہ تمام اقوام عالم تک پھیلا ہوا ہے۔
دہشت گردی کی اصطلاح فرانسیسی ٹیرریزومے، لاطینی ٹیرر(دہشت گردی سے نکلی ہے ۔ جب سمبری قبائل کے جنگجووں نے سن ۱۰۵ قبل از مسیح میں روم پر حملے کی ٹھانی تو روم میں اسے (ٹیرر سمبریکس) یعنی بے حد ہیجان اور ایمرجنسی کی کیفیت گردانا گیا۔ فرانسیسی نیشنل کنونشن نےستمبر ۱۷۹۳ کو دہشت کے راج سے منسوب کیا۔ ۱۷۹۳ سے ۱۷۹۴ تک کے عرصہ کو دہشت کے دور حکومت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ انقلاب فرانس کے ایک رہنما میکسمیلین روبسپیری نے ۱۷۹۴ میں اعلان کیا کہ ” دہشت گردی انصاف کے علاوہ کچھ نہیں ہے؛ تیز، سخت اور غیر لچکدار انصاف۔”
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ۱۹۹۴ میں ہشت گردی کی یہ تعریف اپنائی ” ایسی انجام شدہ یا ارادی مجرمانہ کارروائیاں جوکہ عوام میں دہشت کی فضا پیدا کرنے کے لیے کی جائیں، چاہے ان کو منصفانہ ثابت کرنے کے جواز میں کسی بھی قسم کی سیاسی، فلسفیانہ، نظریاتی، نسلی، گروہی، مذہبی یا کسی بھی اور قسم کی دلیل پیش کی جائے۔ “
گو کہ مملکت خداداد پاکستان میں دہشتگردی کی تعریف بہت دیر سے ۱۹۹۷میں اپنائی گئی مگر پھر اس تعریف میں وقت کے بدلتے تقاضوں کے پیش نظر کافی ترامیم کی گئیں۔ ۱۵ اگست ۲۰۰۱ میں ۱۹۹۷ کے اینٹی ٹیررزم ایکٹ میں ۲۰۰۱ کے ترمیمی اینٹی ٹیررزم آرڈینینس کے تحت کافی تبدیلیاں کی گئیں۔ جس کے تحت دہشت گردی کی تعریف کچھ اس طرح سے سامنے آئی کہ اسے پڑھنے اور سمجھنے کے لیے ایک وکیل کی ضرورت پیش آئے۔ کیونکہ اس تعریف کی رو سے ایسی بہت سی کارروائیاں بھی دہشت گردی کے زمرے میں آ گئیں جو شائد نارمل حالات میں مختلف جرائم کی طرح دیکھی جاتیں۔
دہشت گردی کی تازہ واردات لاہور کے علاقے یوحنا آباد میں ہوئی مگر یہ اپنی طرز کا کوئی انوکھا واقعہ نہیں تھا۔ اس سے قبل بھی ستمبر ۲۰۱۴ میں پشاور میں گرجا گھر پر طالبان نے حملہ کیا جس کے نتیجہ میں سو سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے۔
مسیحیوں پر حملے صرف طالبان ہی نہیں کرتے، پچھلے چند سالوں میں خاص طور پر پنجاب میں مذہبی منافرت پھیلانے والے عناصر کی جانب سے مسیحیوں پر حملے کئے جاتے رہے ہیں۔ گوجرہ کے ۴۰ سے زائد گھروں کو نظر آتش کرنے سے لیکر، لاہور ہی میں جوزف کالونی کا واقعہ بھی پیش آیا جس میں بہت سے مسیحیوں کے گھروں کو مسمار کر دیا گیا۔
وجوہات چاہے کچھ بھی رہی ہوں، ہمارے معاشرے میں مجموعی طور پر عدم برداشت کا رجحان، بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت یا اقلیتوں کا بڑھتا ہوا عدم تحفظ کا احساس، مگر یہ سب باتیں کسی بھی ہجوم کے دو انسانوں کو زندہ جلانے کا جواز نہیں بن سکتیں۔
نوم چومسکی نے کہا تھا، ” ہر کوئی دہشت گردی کو روکنے کے لیے پریشان ہے، اس کا ایک آسان حل ہے، اس میں حصہ لینا چھوڑ دیں۔” لاہور میں پچھلے دو دن سے جو ہو رہا ہے اسے سوائے دہشت گردی کے کوئی اور نام دینا مشکل ہے۔ اسے وجیلینٹے جسٹس ( سڑک کا انصاف یا خدائی فوجداروں کا انصاف) کے علاوہ کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ جس کے لیے دلیل دی جاتی ہے کہ مجرموں کو سزا دینے کے مناسب قانونی نظام کے فقدان سے یہ صورت حال پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح کے خدائی فوجدار سمجھتے ہیں کہ حکومت قانون نافذ کرنے میں ناکام رہی ہے اور عام طور پر ایسے گروہ ان لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں جو قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں یا جو قانون سے بالاترسمجھے جاتے ہیں ۔
مگر لاہور کے کیس میں دونوں افراد قانون کی تحویل میں تھے اور انہیں پولیس کی نفری سے چھڑا کر بے رحمی سے پیٹا اور پھر جلا دیا گیا۔ ایسے میں ان خدائی فوجداروں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ خدائی فوجداری انصاف میں زیادہ تر وہ لوگ مارے جاتے ہیں جو یا تو بے گناہ ہوتے ہیں یا جنہیں غلطی سے کوئی اور شخصیت سمجھ لیا جاتا ہے۔ قصور کے بے قصور نعیم کا جلایا جانا اس بات کا واضع ثبوت ہے کہ وجیلینٹے جسٹس کا راستہ بے گناہوں کے خون سے رنگاہے۔
مسیحی، ہندووں کے بعد پاکستان کی دوسری بڑی اقلیت ہیں، جو کہ پاکستان کی اکثریتی مسلمان آبادی کا صرف ۱۔۶ فیصد ہیں۔ مسیحیوں کی زیادہ تر تعداد کراچی، لاہور اور فیصل آباد میں مقیم ہے، جبکہ صوبہ پنجاب میں مسیحی اکثریت کے کئی گاوں موجود ہیں۔
ان مسیحیوں میں زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کے نچلی زات کے ہندو آباواجداد نے آج سے صدیوں قبل برطانوی راج کے زیر اثرہندومت چھوڑ کر مسیحیت کو بطور مذہب قبول کیا۔ زات پات میں لتھڑے ہوئے ہندو معاشرے میں ان لوگوں کو معاشرے میں بہت نیچی سطح پر جانا جاتا تھا اور انہوں نے اس زات پات کے نظام میں اپنے انجام تک پہنچنے کی نسبت مذہب کو تبدیل کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔ ان میں سے بہت سے مسیحیوں نے برطانوی راج کے تحت بننے والے گیریثرنز میں محنت مزدوری کی۔ ہم میں سے بہت سے شائد اس بات سے ناواقف ہیں کہ آج بھی تقریبا ہر گیریثرن کے ساتھ ایک علاقہ ‘لال کڑتی’ کہلاتا ہے جس کا روایتی طور پر مطلب ہے جہاں مسیحی رہتے ہوں۔
افسوس کہ زات پات کا وہ نظام جس نے ان لوگوں کو اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا اس نے پاکستان میں بھی ان کی جان نہ چھوڑی اور پاکستان میں بھی مسیحیوں کو عمومی طور پر نچلی زات کا شہری ہی سمجھا جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ آج بہت سےپاکستانی مسیحی یا تو بیرون ملک چلے گئے ہیں یا وہاں پر کام کرتے ہیں جس سے ان کی معاشی زندگی قدرے بہتر ہوئی ہے مگر یہ پھر بھی ہمارے معاشرے کا ایک مظلوم و محروم طبقہ ہیں جو زیادہ تر ایسے کام کرتا ہے جن کو مسلمان کرنا پسند نہیں کرتے جیسا کہ صفائی کا کام۔ ہمارے بلدیاتی اداروں میں جھاڑو کا کام نوے فیصد مسیحی خواتین و حضرات کرتے ہیں، اسی طرح گھروں میں صفائی کا کام یا پھر ہسپتالوں میں صفائی کا کام بھی عمو ما یہی لوگ کرتے ہیں۔
عدم تحفظ کے اس احساس کے پیش نظر بہت سے مسیحی کینڈا اور آسٹریلیا میں سیٹل ہو چکے ہیں، اور بہت سے ہر روز اس ملک کو چھوڑنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ آج کے مسلم اکثریتی پاکستان میں اقلیتیں آبادی کا صرف ۴ فیصد رہ گئی ہیں مگر بڑھتی ہوئی اسلامی انتہا پسندی ان کو تیزی سے کم کرتی جا رہی ہے۔
موجودہ واقعہ سے ایک اور بات واضع ہوتی ہے کہ ہمارے سیاسی اور مذہبی اکابرین نے مسیحیوں کو وہ راستہ دکھا دیا ہے جس پر چلنے سے یہ لوگ ہمیشہ کتراتے رہے۔ ان لوگوں نے اس سے قبل قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ اس کی وجہ پولیس کی غفلت کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے ارد گرد ہونے والے پرتشدد مظاہرے بھی ہو سکتے ہیں۔ جنہوں نے ان لوگوں کو باور کرایا کہ اس ملک میں اپنی بات منوانے کا واحد راستہ پرتشدد احتجاج ہے۔
پاکستانی مسیحی زندگی کے ہر شعبے میں اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں وہ چاہے سول سروس ہو، فوج ہو، تعلیم ہو یا صحت۔ ہر جگہ پر مسیحی آپ کو اپنے کام میں مگن نظر آ ئیں گے۔ بلکہ اگر اس بات کو مبالغے کے زمرے میں نہ لیا جائے تو آج کے پاکستان میں صحت اور تعلیم کے میدان سے اگر مسیحی اقلیتوں کی خدمات کو منہا کر دیا جائے تو باقی صرف شوکت خانم اور نمل ہی بچتے ہیں کیونکہ ان دو اداروں کے علاوہ پاکستان میں صحت اور تعلیم کے شعبے مسیحیوں کے دم قدم سے ہی آباد ہیں۔
گوجرہ، جوزف کالونی اور کوٹ رادھا کشن میں ہونے والے واقعات نے اقلیتوں میں عدم تحفظ کے احساس کو دو چند کر دیا جس کا رد عمل موجودہ بم دھماکوں کے بعد مسیحیوں کی طرف سے پرتشدد احتجاج کی صورت نکلا۔ مگر مسیحیوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کیونکہ ہم نے طالبان کے خلاف ضرب عصب شروع کر رکھی ہے اس کا رد عمل ایسے ہی حملوں کی صورت نکلے گا جب تک کہ ہم سب مل کر آخری دہشت گرد تک کو کیفر کردار تک نہیں پہنچا دیتے۔ ایسے میں خود کش حملے اور بم دھماکے کہیں بھی، کسی بھی وقت ہو سکتے ہیں۔ ابھی چند ماہ قبل ہی پشاور کے ایک آرمی سکول پر دہشت گردوں کا حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب اور ضابطہ اخلاق نہیں ہوتا۔ ان کا مقصد صرف دہشت پھیلانا ہوتا ہے۔ مگر اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ مسیحی اقلیت خود کو ان دہشت گرد کارروائیوں سے صرف اس لیے مبرا سمجھےکیونکہ وہ مسلمان نہیں ہیں۔ انہیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ دہشت گردوں کا ہدف پاکستانی ہیں اور اگر مسیحی اپنے آپ کو پاکستانی کہتے اور سمجھتے ہیں تو پھرانہیں ایسے حملوں کے لیے پر تشدد احتجاج کا راستہ ترک کرکے اپنےمسلمان پاکستانی بھائیوں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کی اس لعنت کے خاتمے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگ کر، سرکاری املاک کو نقصان پہنچا کر اور دیگر پر تشدد کارروائیوں میں ملوث ہو کر مسیحی اپنے ایک امن پسند اقلیت ہونے کا احساس ختم کرتے جا رہے ہیں۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام پاکستانی ادارے مل کر اقلیتوں کے حقوق کی فراہمی یقینی بنائیں، اقلیتوں کو بھی چاہیے کہ وہ ایسے وقت میں قانون اپنے ہاتھ میں لیکر ریاست پاکستان کی مشکلات میں اضافہ نہ کریں ۔ بردبار مسیحی حلقوں کو اپنی نوجوان نسل کو سمجھانا چاہیے کہ قانون کو ہاتھ میں لے کر یہ لوگ اپنے ہی ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ حکومت کو اور خاص طور پر پنجاب حکومت کو چاہیے کہ وہ ان شر پسندوں کو جنہوں نے دو معصوم لوگوں کی جان لی انہیں شناخت کرکے قرارواقعی سزا دے۔
آج ہمیں اپنے اندر برداشت، تحمل اور بردباری کی ضرورت ہے، تاکہ پاکستان کے دشمن مسیحیوں یا مسلمانوں کو بھڑکا کر اپنے مزموم مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکیں۔