طالب علم ،تعلیم اور موجودہ سیاست- لوہا گرم ہے

دو نوجوان حصول تعلیم کے سلسلے میں شہر جانے کے لیے بس سٹاپ پر کھڑے تھے۔وہ آپس میں بحث کررہے تھے ۔یہ لڑکے آپس میں بہت گہرے دوست لگ رہے تھےمگر ان کے نظریات ایک دوسرے سے مختلف لگ رہے تھے ۔ان میں سے ایک نوجوان جو عمران خان کا شیدائی لگ رہا تھا،بولا کہ اس بار عمران خان ہمیں 14 اگست کو آزادی دلا کر نیا پاکستان بنائے گا۔ن لیگ کا حمایتی بولا آزادی تو ہم نے 1947 میں ہی حاصل کرلی ہے ،اب کس سے آزادی حاصل کررہے ہو؟ بحث کے دوران ان میں کافی گرما گرمی بھی ہوئی۔یہی بحث کرتے ہوئے وہ میرے قریب آگئے اور یہی سوال مجھ سے کر ڈالا کہ سر آپ بتائیں کہ اس بات یومِ آزادی منایا جائے گا یا نہیں ؟اس سوال پر میں کچھ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ ان نوجوانوں کے ذہنوں میں تعلیمی سوالات کی بجائے سیاسی سوالات کیوں جنم لے رہے ہیں۔سیاستدانوں کی نورا کشتی نے ان طالب علموں کو کس جگہ لاکر کھڑا کر دیاہے ؟یہ طالب علم تعلیم سے زیادہ سیاست پر توجہ دے رہے ہیں جب کہ انکو اپنی توجہ تعلیم پر مرکوز رکھنی چاہیے۔
اس سے پہلے کہ میں ان کے سوال کا جواب دیتا میرے قریب کھڑے ایک ادھیڑ عمرشخص نے انہیں ایساتفصیلی جواب دیا کہ میں حیران رہ گیا۔اس نے کہا کہ حقیقت سے کوئی منہ نہیں موڑ سکتا۔آزادی تو ہم نے 1947ء میں ہندوؤں اور انگریزوں سے حاصل کرلی اور یہ آزادی ہم نے نہیں بلکہ ہمارے بزرگوں نے بڑی قربانیاں دے کر حاصل کی ۔ہمارے بزرگوں نے اپنا گھربار،زمین،جائیداد سے لے کر اپنی اپنی جانوں کے نذرانے تک پیش کر کے ہمارے لیے یہ نعمت حاصل کی ۔انہوں کے کہا برخوردار آج خان صاحب جس آزادی کی بات کر رہے ہین وہ بتائیں کہ وہ کس سے آزادی لینا چاہتے ہیں ؟
وہ اس وقت کونسی قید میں ہیں؟بات صرف یہ ہے کہ ان کو اقتدار نہیں ملا،اس لیے وہ عوام کو ورگلا رہے ہیں خان صاحب پہلے اپنی جماعت میں دیکھیں کہ کیا وہ آزاد ہے یا اس پر بھی کوئی قابض ہے ؟ عمران خان اپنی جماعت میں سےکوئی ایک ایسا بڑا لیڈر دکھا دیں جس کا دامن صاف ہو۔ہر دوسرا شخص تحریکانصاف کا کسی نہ کسی پارٹی سے آیا ہوا ہے ۔اس وقت جو لوگ ان کی ٹیم میں شامل ہیں وہ قوم کو موجودہ نظام سے آزادی دلا سکتے ہیں؟چودھری برادران اور شیخ رشید پرویز مشرف دور مین اقتدار میں رہے ،کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دور میں بھی عوام کی آزادی کے لیےکچھ کیا۔یہی نہیں پی پی کے دور میں پرویز الٰہی ڈپٹی وزیراعظم بن بیٹھےتھے۔انہوں نے ڈپٹی وزیراعظم بن کر کونسا معرکہ مارا سوائےاسکے کہ انہیں حکومتی سطح پر مراعات ملیں ۔لال مسجد کے واقعات پر شیخ رشید یا چودھری برادران نے اقتدار کا لات کیوں نہیں ماری؟
اس شخص نے کہا برخودار ! سیاست دانوں کوچھوڑو اور اپنی تعلیم حاصل کرو ۔کوئی بھی سیاست دان عوام سے مخلص نہیں ۔نوازشریف نے پی پی دور میں کتنے ڈرامے کیے ۔شہباز شریف نے لوڈشیڈنگ کے خلاف مینارِ پاکستان پر احتجاج کا ڈرامہ کیا ۔نوازشریف نے خود لانگ مارچ کیا،اس وقت کیوں نہیں سوچا کے یہ غلط ہے یا صحیح ؟
اب عمران خان کو بھی لانگ مارچ کر کے اپنا رانجھا راضی کر لینے دیں ۔طاہرالقادری کا کردار سب سے کے سامنے ہے ،وہ پی پی پی کے دور میں دھرنا دے کر واپس کینیڈا چلا گیا۔آج پھر اسکو عوام کا خیال آیا ،یا پھر کسی کے کہنے پر دوبارہ لوٹ آیا ہے ۔الطاف حسین جو اپنے منہ عوام کا بہت بڑا خیرخواہ ہے وہ موت کے ڈر سے پاکستان آنے سے گریزاں ہے ۔وہ عوام کے مسائل کیا حل کریں گا؟؟؟
مذہبی سیاست دانوں کا کردار بھی کچھ زیادہ اجلا نہیں ہے ۔وہ بھی عملاً اقتدر کے کھیل میں شریک ہیں ۔الغرض تمام سیاست دانوں کو صرف اپنے پیٹ سے غرض ہے عوام سے نہیں ۔آپ لوگ ان باتوں میں اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے تعلیم پر توجہ دو۔اپنے اور اپنے گھر والوں کے بارے میں سوچو۔
یہ باتیں سن کر میں نے ان بزرگ سے اتفاق کیا ۔اور کہا اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ آجکل سارے سیاست دان اپنے مفاد کے لیے عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔آج دنیا بھر میں مسلمان ذلیل و رسواء ہو رہے ہیں۔مگر ہمارے رہنماؤں کو اقتدار کے جھگڑے سے فرصت نہیں۔عالمی سطح پر مسلمانوں کی ترجمانی کرنے والا کوئی نہیں ۔ایک او آئی سی بنائی ہوئی ہے ۔آج تک اس نے مسلمانوں کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔
خان صاحب،طاہرالقادری،جماعتِ اسلامی اور دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتیں عالمی سطح پر ہونے والے مظالم کے خلاف اٹھیں ،مگر افسوس کہ ہم اس طرف نہیں سوچتے بلکہ اپنے بارے میں سوچتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ایمان پر قائم رکھتے ہوئے اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرنے کی توفیق دے ۔

سورس : روزنامہ اسلام