!!!پانی کی بڑھتی ہوئی قلت۔۔۔ ذمہ دار ہم خود ہیں

پاکستا ن میں بجلی و پا نی کی کمی ایک ایسا مسئلہ ہے جوخطر ے کی گھنٹی کے طور پر مسلسل بج رہا ہے۔ پا نی کی کمی کے مسئلے سے نبرد آزما ہو نے کے لیےڈیمز پر فوری توجہ دینے کیضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو زیر زمین پا نی کے علا وہ با لا ئے زمین بھی کثر ت سے پا نی عطا کیا ہے ۔ جسے ہم سراسر اپنی نااہلی کی وجہ سے ضا ئع کر رہے ہیں۔ دریا وں پر بند با ند ھنے یا بڑ ے ڈیم بنا نے والے معا ملے تو آپ بھول ہی جا ئیے کیو نکہ یہاں اکثر اجتما عی مفا دات اور انفرادی مفا دات کی جنگ میں انفر ادی مفا دات جیت جا تے ہیں۔ قومی اتفاق رائے نہ ہونے کے با عث سا رے منصوبے دھر ے کے دھر ے ہی رہ جا تے ہیں جیسے کالا باغ ڈیم ہماری ذاتی مفادات اور اناوں کے گنبد کے نیچے دبا ہے۔ کہتے ہیںا ن کی مد د نہیں ہوتی جو خو داپنی تقد یر بد لنے کے لیے پسینہ نہ بہا تے ہوں‘بنیا دی اصول تویہ ہی ہے کہ اگر کسی چیز کی قلت واقع ہو تو اسے انتہا ئی کفا ئیت اور بچت سے استعمال کیا جا ئے۔ اس کے لیے سو چ سمجھ کر منصوبہ بند ی کی جا ئے جو ہم سے ہو تی نہیں ہے ہو جا ئے تو عمل کون کر ے۔معمول کے مطا بق ملک میں با رش کا موسم دو مر تبہ آتا ہے بارش کا پا نی ذخیرہ کر کے اپنے باقی کے خشک دنوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔چھوٹے ڈیم اس سلسلے میں زیا دہ کا رآمد ثا بت ہو سکتے ہیں۔ بڑ ے ڈیم بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں لیکن چھوٹے ڈیم ،چھوٹے منصوبے کم پیسوں ،کم لا گت ،کم جگہ ،کم وقت میں ہما ری ضر وریا ت کو پو را کر سکتے ہیں۔ پاکستا ن ایسے زمینی خدوخال رکھتا ہے جس کو پا کستان کی خو ش قسمتی بھی کہہ سکتے ہیں کہ بے شما ر

Akosombo_Dam_is_spilling_water,_Ghanaایسی جگہیں ہیں جہا ں چھوٹے ڈیم بنا کر نا صرف ہم اپنی بجلی کی ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں بلکہ زراعت اور پینے کے پا نی کے مسئلے کو بھی حل کر سکتے ہیں ۔ ہما رے ہاں کئی با ر منصوبوں کے اعلا ن کے با وجود ان پر عمل درآمد د نہیں ہو سکا ۔ لیکن بھا رت کو دیکھیں تو نہ صر ف اپنے بلکہ وہ سند ھ طاس کی وجہ سے ہمیں ملنے والے دریاوں پر بھی دھڑا دھڑ بڑے اور چھو ٹے ڈیم بلکہ بہت چھو ٹے چھوٹے ڈیم بھی بنا رہا ہے ۔بھارت راجوڑی میں دریائی نالہ 3 میگا واٹ ،استھا ن میں استھا ن نا لہ پر 0.75میگا واٹ ،با نڈی پو رہ میں ما ڈ مٹی نا لہ پر 0.03میگا واٹ اور بیلنگ میں بیلنگ نا لہ پر 0.1میگا واٹ کے منصوبے پر عمل کر چکا ہے ۔یہ چند ایسے چھو ٹے چھوٹے منصوبے ہیں جن کے ذریعے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کس طر ح اپنی ضرو ریا ت کو پور ا کر نے کے لیے تگ ودو کر رہا ہے ۔ نہ صر ف یہ منصوبے بلکہ کچھ اور ایسے منصوبے جن کی منصوبہ بند ی کی گئی ہے ،جن میں ہا نسر ، پیداواری صلا حیت 1.3،بارہ مو لا میں صلا حیت 6میگا واٹ ہو گی ۔خیر بھارت تو دھڑا دھڑ اپنے مستقبل کے لیے پلا ننگ اور ان پر عمل کر تا جا رہا ہے ۔اور ہم آج تک ”اتفاق رائے“ ہی پیدا نہیں کر سکے اتفاق رائے پیدا کرتے کرتے آج نوبت یہاں آن پہنچی ہے کہ ہم توانائی کی کمی کا بھی شکار ہیں اور پانی بھی ہاتھوں سے نکلا جا رہا ہے۔ مو ن سون کے مو سم میں خا صی با رشیں ہو تی ہےں ۔لیکن ہما رے پاس ا س کے پا نی کو ذخیر ہ کر نے لیے زخیرے نہیںجو ہم بو قت ضر ورت استعمال کر سکیں۔ دریا وں کے لیے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہما را پا نی روکا جا رہا ہے لیکن ہم آبشاروں اور پہا ڑی ند ی نا لوں کے پا نی کو بھی روکنے کی بند وبست نہیں کر رہے ۔ حالانکہ اگر اس پا نی کو نہ بھی روکا جا ئے تو ان کے بہا وپر ٹر با ئن نصب کر لیے جا ئیں ۔تواس سے پید ا ہو نے والی بجلی کو مقا می سطح پر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔تو انا ئی کے اس سستے ذریعے سے بجلی پیدا کر کے فا ئد ہ حاصل کیا جا سکتا ہے اور بہنے والا پا نی آبپا شی کے کا م بھی آسکتا ہے ۔اب با ت کر تے ہیں پا کستا ن کے چھو ٹے بڑ ے مکمل شدہ اور چا لو ڈیمو ں اور کچھ منصوبوں کی ۔ چا لو ڈیموں میں تو تین بڑ ے ڈیم تر بیلا ، منگلہ ،وارسک ڈیم،ان کے علا وہ چند چھوٹے اور درمیا نے ڈیم بھی ہیں ۔ لیکن مکمل ضر وریا ت کے مطا بق کم ہیں۔ چا روں صوبوں میں کئی مقامات کی فر یبلٹی سٹڈی ہو چکی ہے اور اس پر لا کھوں روپے خر چ ہو چکے ہیں ۔لیکن منصوبوں پر کا م نہیں ہو ا۔حکومت پنجاب نے تین سو پچاس ڈیم بنا نے کا اعلان کیا لیکن ابھی وہ صرف اعلا ن ہے ۔بلوچستان میں چھو ٹے ڈیمو ں کی تعمیر کا حکومت نے اعلا ن کیا ہے۔ لیکن کیا صرف اعلا نا ت ہی کا فی ہیں ، اعلانات پر عمل درآمد کی بھی ضرورت ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ اعلا نا ت کر تے رہ جا ئیں اور ہم سنتے رہ جائیں ۔ اتنے میں کسی دن ایک اور اعلا ن ہو جا ئے گا کہ پا کستان کی عوام پا نی کی لو ڈ شیڈ نگ سے سخت پر یشان ،اس لئے بروقت ادراک ہی ہمےں مستقبل کے اس اہم مسلے سے نجات دلا سکتا ہے