اسلام علیکم۔
آج میں نے سوچا کہ قرآن مجید کے بارے میں اپنی معلومات میں اضافہ کیا جائے اس لئے اس کی سورتوں اور آیات کی ترتیب کے حوالے سے لکھنا شروع کر رہا ہوں۔
سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ ذیل صحابہ کو کاتب وحی مقرر فرمایا تھا
۱حضرت ابوبکررضی اللہ تعالٰی عنہ ،
۲ عمرفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ،
۳ عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ،
۴ علی رضی اللہ تعالٰی عنہ،
۵ معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ،
۶ زید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ،
۷ ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ،
۸ خالد بن ولیدرضی اللہ تعالٰی عنہ،
۹ ثابت بن قیس رضی اللہ تعالٰی عنہ،۔
قرآن کا جو حصہ نازل ہوتا آپ صحابہ کو مامور فرماتے کہ اسے تحریر کرلیں یہاں تک کہ کتابت کے پہلو بہ پہلو قرآن کریم کو سینوں میں بھی محفوظ کرلیا گیا۔
محدث حاکم نےمستدرک میں زید بن ثابت سے بخاری ومسلم کی شرط کے مطابق روایت کیا ہے کہ زید بن ثابت نے کہا ہم عہد رسالت میں ”رقاع”(ٹکڑوں)سے قرآن جمع کیا کرتے تھے ۔
(الاتقان،ج۱ص،۹۹نیز البرہان ،ج۱ص۲۳۷)
مذکورہ صدر حدیث میں ”رقاع ”کا جو لفظ وارد ہوا ہے یہ رقعہ (ٹکڑے) کی جمع ہے اس کا اطلاق چمڑے، پتھر،کپڑے اور کاغذ کے ٹکڑے پر کیا جاتا ہے۔کتب حدیث میں ایسی لا تعداد روایا ت موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کاتبین وحی صحابہ کو قرآن مجید لکھواتے اور ان کو آیات کی ترتیب سے آگاہ کیاکرتے تھے ۔
ترتیب سوروآیات:
جہاں تک اس نظریہ کا تعلق ہے کہ ترتیب کی دوقسمیں ہیں
(۱) توقیفی
(۲) اجتہادی۔
تو اجتہادی ترتیب کسی صحیح دلیل پر مبنی نہیں ہے ۔اس لحاظ سے یہ ایک کمزور قسم ہے
احادیث سے ثابت ہے کہ آپ نے قرآن کی متعدد سورتیں نماز کے دوران یا خطبہ جمعہ میں ترتیب آیات کے ساتھ صحابہ کرام کی موجودگی میں تلاوت کیں یہ اس امر کی صریح دلیل ہے کہ آیت کی ترتیب توقیفی ہے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ صحابہ کسی سورت کی آیات کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ترتیب کے خلاف تلاوت کریں۔
ابو جعفر بن زبیر فرماتے ہیں
”توقیفی قسم مقابلۃ بڑی ہے بخلاف ازیں اجتہادی قسم اس سے چھوٹی ہے ”
جہاں تک سورتوں کی ترتیب کا تعلق ہے وہ بھی توقیفی ہے ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں یہ ترتیب معلوم تھی
خلاصہ یہ کہ قرآن مجید عہد رسالت میں لکھا جاچکا تھا۔ مگر اس کو کتابی صورت میں یکجا کرنے کی نوبت نہ آئ تھی کیونکہ قرآن صحابہ کے سینوں میں اسی طرح محفوظ تھا جیسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بحکم خداوندی ان کو آگاہ وآشنا کیا تھا ۔
امام زرکشی لکھتے ہیں:
”عہد رسالت میں قرآن کو ایک مصحف میں اس لئے نہ لکھا گیا تاکہ اس کو بار بار تبدیل کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے ۔اس لئے قرآن کی کتابت کو اس وقت تک ملتوی رکھا گیا جبکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی وجہ سے نزول قرآن کی تکمیل ہوگئ
وہ صحیفے جو آپ کے گھر میں محفوظ تھے اور اس کے پہلو پہلو امّی اور غیر امّی صحابہ کا حافظہ قرآن کریم کی حفاظت وصیانت میں ممدون ومعاون اور اس آیت کامصد اق ثابت ہوئے :انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون ،
بے شک ہم ہی نے اس ذکر کو اتارا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں