شروع اللہ کے با برکت نام سے
پاکستان کی سیاسی صورتِ حال پر اگر نظر ڈالی جائے تو وہ خاصی مایوس کن ہے ۔بے حسی اور حوس پرستی پاکستان میں سیاست کا ایک اہم جز بن چکا ہے ،جس نے بغیر کوئی سیاست دان سیاست کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔پاکستان میں سیاست کو یرغمال بنا لیا گیا ہے ..اور عوام ۔۔۔یا تو ہماری عوام بہت معصوم بھولی بھالی ہے یا حد سے زیادہ چلاک ۔۔۔اسکا فیصلہ تاحال میں نہ کر سکا۔لیکن اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کے حکمرانوں کے لیے پاکستانی عوام کو بع وقوف بنانا بہت آسان ہے ۔ الیکشن سے پہلے امیدواروں کے نعروں اور وعدوں سے عوام بے وقوف بن جاتی ہے اور پھر پورے پانچ سال اپنے ہی منتخب شدہ پارٹی اور لوگوں کو گالیاں اور بد دعائیں دیتی نہیں تھکتی ۔پھر کوئی دوسری پارٹی نئے نعروں کے ساتھ آتی ہے اور ہماری عوام اسکے نعروں پر لبیک کہتی ہوئی اس کے ساتھ جا کھڑی ہوتی ہے ۔یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا ہے ۔اب حال یہ ہے کے مسلم لیگ ن وفاق میں تیسری دفعہ ہے اور پیپلز پارٹی بھی متعدد بار منتخب ہوچکی ہے مگر اور ہمارا ملک وہیں کا وہیں ہے ۔ہمارے ملک ہی کی ہر جماعت جمہوریت کا دعویٰ تو کرتی ہے لیکن افسوس کے ان جماعتوں کے اپنے اندر جمہوریت نام کی چیز نہیں ہے ۔صرف چند جماعتوں کے علاوہ ہر جماعت شخصی ،خاندانی اور برادری کے نظام پر استوار ہے اور ان میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ۔میرے نزدیک پاکستان اس وقت ترقی کرے گا جب باپ کےبعد وزیراعظم کے کرسی کا امیدوار اسکا بیٹا یا بیٹی نہ ہوں بلکہ پارٹی میں شفاف الیکشن سے منتخب ہونے والا نیا سربراہ ہو ۔
مگر پاکستان میں یہ سب تو دور کی بات ہے جب یہاں کوئی منتخب ہوتا ہے تو وزارتیں بھی اپنے رشتہ داروں میں بانٹتا ہے ۔کرپشن سیاستدانوں کا ایک لاعلاج مرض بن چکا ہے۔بلکہ ہمارے یہاں تو کہا جاتا ہے ، ”جتنا لوٹ سکتے ہو لوٹ لو پتہ نہیں دوبارہ باری ملتی ہے یا نہیں ؟؟؟“
ہر بجٹ پہلے سے زیادہ مہنگائی لاتا ہے ۔عوام تو بس یہ سوچ سوچ کر مارے جاتے ہیں کے اگلا بجٹ شاید بہتر ہو۔جو لوگ اپنے لیے آواز نہیں اٹھاتے ان کے لیے آسما ن سے کوئی مسیحا بھی نہیں اترتا ۔ہم خود تبدیلی کے نعرے لگاتے ہیں مگر حقیقت میں ہم خود تبدیلی نہیں چاہتے ۔تبدیلی کیسے آئے گی تبدیلی ہم سے آئے گی ۔تبدیلی لانے کے لیے ہمیں سب سے پہلے اپنے آپ کو تبدیل کرنا پڑے گا ۔ہم ٹھیک نہیں ہوتے تو حکمرانوں سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔
حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے : جس طرح کے لوگ ہوتے ہیں ان پر اسی طرح کے حکمرا ن مسلط کر دیے جاتے ہیں ۔
ہم خود ٹھیک نہیں ہوتے اور توقع کرتے ہیں کہ ہمارے حکمران اچھے ہوں،ملت فروش نہ ہوں ،قوم کی غیرت کا سادا کرنے والے نہ ہوں ،ملکی مفادات پر ذاتی مفادات قربا ن کردیں ،نیک ہوں ،اچھے کردار کے مالک ہوں ، عوام کے مسائل سمجھتے ہو ں مگر ایسا تب ہو گا جب ہم خود ٹھیک ہوں گے ۔ہم خود کرپٹ ہیں ، حکمران کیسے نہیں ہوں گے ؟؟؟ ہمارے کئی سیاست دانوں کو تو ملک میں گھسے ہوئے ایک عرصہ ہوگیا ہے۔حیرت ہے لوگوں پر جو ایسے سیاست دانوں پر اعتماد کرتے ہیں جنکا سب کچھ باہر کے ملکوں میں پڑا ہواور انکا عوام سے واحد رابطہ ویڈیو لنکنگ کے ذریعے ہو۔کیا ایسا شخص عوام کے حالات بدل سکتا ہے ؟ ہر گز نہیں۔
اے خاک نشینوں اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آپہنچا ہے
جب تخت گرایں جائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے
اب ٹوٹ گرئیں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اٹھیں ہیں اب تنکوں سے نہ ٹالیں جائیں گے
میرے نزدیک تلوار سے زیادہ اثر اس قلم میں ہوتا ہے جو معاشرے کی اصلاح کے لیے اٹھے،میرا قلم اٹھانے کا مقصد کسی لیڈر یا پولیٹیکل پارٹی پر تنقید کرنا نہیں بلکہ عوام کو آگاہ کرنا اور ان کی اصلاح کرناہے۔اگر پاکستان تبدیلی چاہتا ہے تو اسے بندے تبدیل کرنا ہوں گے پارٹیز نہیں ۔
ہمیں اگر معاشرے ،سیاسی نظام اور ملک میں کوئی مثبت تبدیلی لانی ہے تو پاکستان کو ایک با کردار ،نڈر ،دیانت دار اور ہر لحاظ سے بہترین قیادت فراہم کرنی ہوگی ۔ پاکستانی سیاست میں اس قدر گند بھرا ہوا ہے کہ کوئی اگر اس پر لکھنا چاہے تو لکھ لکھ کر اس کے ہاتھ تھک سکتے ہیں لیکن یہ گند ختم نہیں ہوسکتا ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ ہم عوام کو شعور کے ساتھ ساتھ اسکے صحیح استعمال کی سیکھ دے ۔آمین
اس دور کے رسم و رواجوں سے ان تختوں سے ان تاجوں سے
جو ظلم کی ٹھوک سے جنتے ہیں انسانی خون سے پلتے ہیں
جو نفرتوں کی بنیادیں ہیں اور خونی کھیت کی کھادیں ہیں
میں باغی ہوں ،میں باغی ہوں ،جو چاہے مجھ پر ظلم کرو