”مکھن“یہ وہ لفظ تھا جس نے پچھلے ایک گھنٹے سے مجھے تنگ کر رکھا تھا۔
میں حسبِ معمول اتوار کو بچوں کا اسلام پڑھ رہا تھا۔پڑھتے پڑھتے اشتیاق احمد کی تحریر ”مکھن کی کہانی “پر نظر پڑی ۔تحریر پڑھنی شروع کی ،پڑھتا گیا اور آخر ختم کر کے اٹھا۔تحریر کا مختصر خلاصہ بیان کیے دیتا ہوں۔
”اشتیاق احمد صاحب کو لاہور کے ایک حکیم نے مکھن تحفے کے طور پر دیا ۔مکھن بہت اچھا تھا۔انھیں مکھن کی عادت پڑگئی ۔اب کچھ عرصہ بعد مکھن ختم ہو گیا تو اشتیاق صاحب کو ضرورت محسوس ہوئی ۔وہ بازاری مکھن خرید لائے ۔اب جناب کو تو عادت تھی خالص مکھن کھانے کی سو انکو یہ مکھن پسند نہ آیا ۔اشتیاق صاحب نے ایک تجربہ کرنے کی ٹھانی انھوں نے مکھن ایک گرم فرائی پین میں ڈالا تو اس میں سے ایک عجیب سی بو آئی اور مکھن ایک سیاہ رنگ کے مادے میں بدل گیا۔اشتیاق صاحب نے اس سے پہلے حکیم صاحب والے مکھن کو گرم کیا تھا تو اس میں سے بڑی پیاری خوشبو آئی تھی اسکے بعد وہ مکھن دیسی گھی اور لسی میں بدل گیا تھا ۔اب اشتیاق صاحب دکاندار کے پاس گئی اور اسے کہا کے یہ مکھن تو جعلی ہے ۔دکاندار نے انھیں ایک مشہور برانڈ کا مکھن تھما دیا ۔اشتیاق صاحب کے مطابق وہ مکھن ایک بہت ہی مشہور کمپنی کا تھا۔انھوں نے گھر آکر مکھن کھولا تو وہ ایک پیلے رنگ کا خوشبودار مکھن تھا۔انھونے مکھن چکھا تو وہ حکیم صاحب کے مکھن سے ذائقے میں تو پیچھے نہیں تھا البتہ پچھلے تجربہ کے بعد اشتیاق صاحب محتاظ ہو گئے تھے انھوں نے اسکے ساتھ بھی وہی کرنے کا فیصلہ کیا۔اسے گرم فرائی پین میں ڈالا ۔دیکھنا یہ تھا کہ اس میں کتنے فیصد لسی اور کتنے فیصد گھی ہے۔لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹا تھا پہلے تو اس میں سے بڑی پیاری قسم کی خوشبو آئی لیکن بھر ایک دم یہ پیاری خوشبو ایک بہت ہی گندی اور بھدی خوشبو میں بدل گئی ۔ مکھن پیلے سے کالا تو نہ ہوا مگر بہت چپ چپا سا مادہ بن گیا۔جب کے نامور ناول نگار اشتیاق احمد کے مطابق حکیم صاحب کے دیسی اور خالص مکھن کے ساتھ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔
اب ہوتی ہے اصل کہانی کی شروعات میں نے یہ تحریر پڑھی تو میرے اندر ایک جنگ شروع ہوگئی۔ایک بندہ کہہ رہا تھا کہ یہ صرف ایک تحریر ہے اور کچھ نہیں۔جبکہ دوسرے کا یہ موقف تھا کے ‘نہیں مصنف کی بات ٹھیک بھی ہو سکتی ہے۔پھر ایک خیال گزرا کے اشتیاق صاحب نے پتہ نہیں کونسا مکھن استعمال کیا ہو گا جس کا یہ حال ہوا ۔اسکے بعد میں مختلف کاموں میں مصروف ہو گیا اور یہ مکھن والی بات بھول گیا۔اتوار ختم ہوا۔اگلے دن کا سورج طلوع ہوا۔میں نے حسبِ معمول تمام کا م کیے ۔اور اب باری آئی ناشتے کی میں نے فریج کھولی ،ڈبل روٹی نکالی مکھن نکالا اور چھری سے مکھن بریڈ پر لگایا اور مزے لے کر کھانے لگا۔آدھا سلائس کھانے کے بعد مجھے اشتیاق صاحب یاد آگئے ۔اب بریڈ کھانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔میرے اند ر سویا ہو شرلک ہومز بیدار ہوا۔میں نے اس مشہور کمپنی کےمکھن کا ڈبہ اٹھا یا۔فرائی پین گرم کیا اور اس میں کافی سارا مکھن ڈال دیا۔ابھی مکھن ڈالے چند منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ ایک ناگوار سی بدبو میرے ناک سے ٹکرائی میں نے اپنا ناک فرائی پین کے قریب کیا اور ایک دم دور ہٹالیا ۔اتنی گندی بو آرہی تھی جیسے کوئی ٹائر جلانے پر آتی ہے“ ۔
اور یہ کوئی عام اور چھوٹی کمپنی کا مکھن نہیں تھا بلکہ یہ ایک بہت بڑی اور نامور کمپنی کا مکھن تھا جس کا مکھن پورے پاکستان میں بکتا ہے ۔جی ہاں ! سہی پہچانا یہ مکھن ”بلیو بینڈ “ والوں کا تھا ۔یہ وہی بلیو بینڈ ہے جس کے اشتہارات ہر وقت ٹیلی ویزن پر چلتے رہتے ہیں ”بلیو بینڈ روزانہ روز بڑھتے جانا “اب تو مجھے اس جملے پر بھی ہنسی آتی ہے۔ اف میں آج تک اتنا گندا اور غلیظ مکھن کھاتا رہا ۔میری طبیعت میں ایک عجیب سا بوجھل پن آگیا ۔میں سوچ رہا تھا کے ان بچوں کا کیا حال ہوتا ہوگا جو یہ مکھن روزانہ کھاتے ہیں ان ہزاروں بلکہ کے لاکھوں بچوں کا کیا حال ہوگا ۔
اگر آپ کو میری باتوں پر یقین نہ آئے تو آپ بھی یہ تجربہ کر سکتے ہیں ،اور چاہے تصدیق کیلئے 18 مئی ۲۰۱۴ کا بچوں کا اسلام خرید کر پڑھ سکتے ہیں۔