قائدِاعظم محمد علی جناح بلاشبہ ایک بہت ہی قابل ، ایماندار اور مثالی شخصیت تھے۔انہوں نے قیامِ پاکستان کی خاطر بے شمار قبانیاں دیں۔انہوں نے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور انہیں ایک مقصد دیا ، ایک راہ دکھائی۔آج بہت سے لوگ شرم ناک حد تک دو قومی نظریے کی مخالفت کر رہے ہیں ۔اور افسوس کے ان میں بہت سے پاکستانی بھی شامل ہیں۔
آیئے دو قومی نظریے اور نظریہ پاکستان پر قائدِاعظم کے ارشادات کی روشنی میں نظر ڈالتے ہیں۔
جداگانہ قومیت کا تصور
“قومیت کی جو بھی تعریف کی جائے مسلمان اس تعریف کی رو سے ایک الگ قوم کا درجہ رکھتے ہیں ۔وہ اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ اپنی ایک الگ مملکت قائم کریں۔مسلمانوں کی یہ خواہش ہے کہ وہ اپنی روحانی ،اخلاقی،تمدنی ،اقتصادی ،معاشرتی اور سیاسی زندگی کی کامل ترین نشونما کریں اور اس مقصد کیلئے جو طریقہ اپنانا چاہیں وہ اپنائیں”
قراردادِلاہور کا خطبہ
“ہندو اور مسلمان دونوںالگ الگ مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں جو بلکل مختلف عقائد پر مبنی ہیں اور مختلف نظریات کی عکاسی کرتے ہیں ۔دونوں قوموں کے ہیروز، رزمیہ کہانیاں اور واقعات ایک دوسر ے سے مختلف ہیں ۔ دونوں قوموں کو ایک لڑی میں پرونا برِصغیر کی تباہی ہو گی کیونکہ یہ برابری کی سطح پر نہیں بلکہ اقلیت اور اکثریت کے روپ میں موجود ہیں۔لہٰذا برطانوی حکومت کے لیے بہتر ہوگا کہ ان دونوں قوموں کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ۔ برِصغیر کی تقسیم کا اعلان کے جو کہ تاریخی اور مذہبی لحاظ سے ایک صحیح قدم ہو گا۔”
عدم اشتراک
“ہم مسلمان ، ہندؤوں سے ہر چیز میں مختلف ہیں ۔تو ہم ووٹ ڈالنے کی صندوقچی میں اکٹھے نہیں ہو سکتے”
ابدی حقیقت
“یہ ایک ابدی حقیقت ہے کہ پاکستان دراصل اسی دن وجود میں آگیا تھا جب برِصغیر میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا ۔ ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ سابقہ قوم کا فرد نہیں رہا بلکہ وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد بن گیا۔”